Thursday 18 June 2015

ایک یاد

دو سال پہلے گلے کے آپریشن کے سلسلے میں فیصل آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں رکنے کا اتفاق ہوا. وارڈ میں میرے بیڈ کے بالکل سامنے والے بیڈ پر ایک لڑکی تھی جو کچھ میری ہی عمر کی ہوگی. وہ لڑکی وہاں پولیس کی کسٹڈی میں تھی.. ہر وقت اس پر پہرا تھا.. اس کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ بول بھی نہیں پا رہی تھی صرف لکھ کر بات کر رہی تھی. ہسپتال میں مشہور تھا کے اس لڑکی نے خودکشی کی کوششکی تھی جس میں اس کی جان تو بچ گئی تھی مگر اسے چوٹ آئی تھی.. اس لڑکی کے چہرے سے اندزہ لگانا بہت مشکل تھا کے وہ کس تکلیف میں ہے. کیونکہ اس کا چہرہ کسی بھی طرح کے جذبات سے عاری تھا.. شام میں جب پورا وارڈ اندھیرے میں ڈوب گیا اور سب سو گئے تو اس نے مجھے اشرے سے اپنے پاس بلایا.. اس وقت وہ کاغذ پر کچھ لکھ رہی تھی.. اس کاغذ پر جو اسے دیا گیا تھا کے وہ لکھ کر اپنی بات بیان کرے. اس نے وہ کاغذ میری طرف بڑھا دیا.. اس کاغذ پر دکھ میں ڈوبے کچھ الفاظ لکھے تھے. کچھ اشعار لکھے تھے کچھ نظمیں لکھی تھیں.. میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے بتایا کے یہ اس کے اپنے لکھے اشعار ہیں.. اس نے میرے ہاتھ سے کتاب لی جو میں پڑھ رہی تھی اور اس پر لکھ دیا "میری کہانی" اس کی آنکھیں آبدیدہ تھیں .. اسی وقت ڈیوٹی پر موجود پولیس آفیسر آگئی اور میرے ہاتھ سے کاغذ لے لیا.. میں پڑھ بھی نا پائی کےاس نے اس میں کیا کہانی لکھی.. اگلے دن میرا آپریشن تھا. آپریشن کے بعد مجھے واپس وارڈ میں شفٹ کیا گیا تو میرا پہلا دھیان اسی لڑکی کی طرف گیا. مگر اس کا بیڈ خالی تھا اور وہ جا چکی تھی.. آج تک میرے دل میں یہ کسک ہے کہ کاش میں نے وہ کاغذ پڑھ لئے ہوتے

No comments:

Post a Comment